پاکستان کے دو قومی نظریہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



محترم قارئینِ کرام : دو قومی نظریہ دراصل قیام پاکستان کی بنیاد ہے اور یہ نظریہ سو فیصد درست ہے.

قیام پاکستان کے پسِ منظر میں جھانکیں تو ہمیں دو قومی نظریے کی تفصیل، تعریف ، صحیح معنوں میں افادیت جھلکتی نظر آتی ہے. 

دو قومی نظریے ہی دراصل نظریہ پاکستان ہے۔

 

نظریہ پاکستان وہ مطمح نظر ہے جس کی بنیاد ایک مخصوص نظریے یعنی اسلام پر رکھی گئی ہے. 

جو اپنی تہذیب و ثقافت ، اقدار و روایات اور اپنا سیاسی و معاشی نظام فکر رکھتا ہے. برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو اپنی شناخت اور پھر دو قومی نظریے ہی کی بنیاد پر جداگانہ ریاست کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ ان کے ساتھ موجود ایک دوسرے نظریے کے حامل افراد جومسلمانوں کے توحید اور انسانی مساوات کے نظریہ حیات کے برعکس بت پرستی اور ذات پات کے قائل تھے۔ 

انہیں اپنے اندر جذب کر کے اپنے نظامِ فکر و عمل کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ 

لیکن اس کے برعکس اس خطے میں بسنے والی ملتِ اسلامیہ اپنے قومی تشخص اور علیحدہ شناخت کو چھوڑنے کیلئے کسی صورت تیار نہ تھی۔ 

یہ ملت اسلامیہ اپنے نظام فکر کو قائم رکھنا چاہتی تھی بلکہ عملی طور پر اس کے ظہور کی قائل تھی۔ 

دونوں قوموں کے درمیان یہی امتیازی خصوصیات دو قومی نظریے کی بنیاد ہیں جو محض نظریہ ہی نہیں بلکہ روز مرہ پیش آنے والی حقیقت ہے۔ 

یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے ایسے علاقوں پر مشتمل علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا. 

جن میں مسلمان اکثریت میں تھے ۔

 

ظاہر ہے کہ جب مسلمان اپنی جداگانہ تہذیب و اقدار اور مذہب و روایات کے لحاظ سے ایک مختلف تشخص کے حامل تھے تو انہیں اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ آئے دن کے نظریاتی ، مذہبی، معاشرتی اور اقتصادی تصادم سے نجات حاصل کریں ، یہی علیحدہ تشخص کی خواہش دو قومی نظریے کی اصل ہے ۔ (سوپر سید علی)

 

یعنی برصغیر جنوبی ایشیاء میں مسلمان ہر لحاظ سے ایک علیحدہ شناخت اور پہچان کی حامل قوم ہے جس کا کوئی امنگ، رنگ، ڈھنگ ہندووں سے مشابہت نہیں رکھتی ، اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں نے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا۔

 

افراد کا ایسا گروہ جس کا کوئی مقصد ہو قوم کہلاتا ہے اور مسلمان ایک ایسی قوم تھی اور ہیں جن کا ایک واضح مقصد ہے یعنی اللہ کے نظام کی برتری ،اور اسی نظام کے تحت اپنی زندگیاں گزارنا، اور یہ تبھی ممکن تھا جب مسلمانوں کے پاس اپنا ایک الگ وطن ہو، پس دو قومی نظریہ کی بنیاد ہی یہ ہے ۔ (سوپر سید علی)

 

حضرت سیدنا آدم علیہ السّلام سے لے کر اب تک دنیا میں دو قسم کے انسانوں کے گروہ ہمیشہ سے موجود رہے۔

 ایک وہ جو دنیا میں امن و سلامتی اور استحکام کا خواہاں رہا اور دوسرا وہ جو شر اورتباہی چاہتا رہا۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ’’ الکفر ملۃ واحدہ‘‘ یعنی کافر ایک ملت ہیں۔ 

وہ جہاں بھی ہوں گے اسلام کے نظام اور نظریات کی مخالفت کریں گے ۔ 

اسی طرح مسلمان اپنے مشترکہ نظریات کی وجہ سے ملت واحد ہیں گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھی روئے زمین پہ بسنے والوں کو دو گروں اور قوموں میں تقسیم کر دیا ، (1) ملت اسلام (2) ملت کفر ۔

 

اسلام کی عظمت، آفاقیت اور حیران کن جاذبیت سے ملت کفر ہمیشہ خائف رہی ، اسلام سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے تحریکیں چلیں ، کتابیں ، قصے، اور فلمیں بنائی جاتی رہیں ، لیکن اسلام کی جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے لے رکھا ہے ، کافروں کے پنجہ استبداد سے محفوظ رہا ۔ (سوپر سید علی)

 

ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگی میں 1761میں ایک اہم امور آیا جس سے ان کی بقا اور سلامتی کو شدید خطرلاحق ہوگیا۔ 

اسلامی حکومتوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرہٹے، جاٹ اور سکھوں نے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا، بر صغیر کے مسلمانوں میں مرکزیت ختم ہونے کے سبب ان کی سیاسی حالت نا گفتہ بہ ہو گئی تھی۔ 

روہیل کھنڈ ، جنوبی ہند، حیدر آباد، بنگال ، اڑیسہ اور پنجاب میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں۔ 

مرکزی حکومت کا دائرہ عمل صرف دہلی کے لال قلعے تک محدود تھا ۔

 

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا کردار

ان حالات میں ایک مردِ خدا حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے مسلمانوں کی راہنمائی کا بیڑا اٹھایا۔ 

آپ نے ملکی حالات کا جائزہ لیا اور یہاں کے حکمرانون میں جہاد کی صلاحیت نہ پا کر حضرت احمد شاہ ابدالی کو مسلمانوں کی مدد پر آمادہ کیا۔ 

حضرت احمد شاہ ابدالی ہر قسم کے مالی فوائد سے بے نیاز ہو کر صرف جذبہ جہاد کے تحت 1761میں پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ 

 

پانی پت کی تیسری جنگ میں اگرچہ مسلمانوں کو عظیم فتح حاصل ہوئی لیکن برصغیر کے مسلم حکمرانوں نے اس سے کوئی سیاسی فائدہ نہ اٹھایا اوت نہ ہی باہمی یگانگت اور اتحاد و سلامتی کی کوئی مربوط کوشش کی گئی۔ 

مسلمانوں کے اس دور زوال میں بہت سے مجاہدین نے مسلمانوں کی حالت کو سنبھالا دینے کی کوشش کی ۔ (سوپر سید علی)

 

دوسری طرف نواب سراج الدولہ 1757اور سلطان ٹیپو شہید نے1799 میں غیر ملکی و غیر مسلم سامراج کے خلاف داد شجاعت دی ۔

اس عزم جہاد نے ثابت کیا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور اپنا قومی تشخص ان کو جان سے پیارا ہے ۔

 

مغلوں کے زوال کے بعد اصلاحی تحریکوں اور مسلم ریاستوں کے نوابوں نے مشرکین سے جہاد کیا اس سے ملت اسلامیہ کے تصور قومیت اور اتحاد کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ یہی وہ محرکات تھے جو جداگانہ اسلامی تشخص سے ارتقائی سفر کرتے ہوئے جداگانہ اسلامی ریاست کے لئے مشعل راہ بنے ۔ (چشتی)

 

تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کا تصور بہت پرانا ہے ،، دو قومی نظریہ کی روشنی میں برصغیر کی تقسیم کے مبلغین میں نہ صرف مسلمان بلکہ خود ہندو اور انگریز بھی پیش پیش رہے ۔

 

حضرت سلطان شہاب الدین محمد غوری نے مسلم ہندو اختلافات کوہمیشہ کے لئے طے کرنے کا ایک حل نکالا اور ہندو راجہ پرتھوی راج کو تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ : برصغیر میں مسلمانوں اور ہندووں کی باہمی معرکہ آرائی کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ برصغیر کو دریائے جمنا کو حدِ فاصل بنا کر اس طرح تقسیم کر دیا جائے کہ مشرقی ہندوستان پر ہندووں اور مغربی ہندوستان پر مسلمانوں کو تصرف ہوجائے تاکہ دونوں قومیں امن و امان سے زندگی گزار سکیں ۔

 

مسٹر جان برائٹ 1817-1898 مسٹر جان برائٹ نے 1858میں حکومت برطانیہ کو تجویز پیش کی کہ ہندوستان کو متعدد خود مختار صوبوں میں تقسیم کر دیا جائے جو بظاہر علیحدہ ہوں۔ 

لیکن تاجِ برطانیہ کی زیر نگرانی ہوں اوریہ برطانوی اقتدار ختم ہونے پر آزاد اور خود مختار ہوسکیں ۔

 

یاد رہے کہ جان برائٹ کی اس تجویز کی اہمیت کے پیش نظر قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے بھی 31 مارچ 1944 کو فارمین کرسچئین کالج کے طلبہ کے استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے اس کا حوالہ دیا تھا۔

 

عقیدے اور مذہب کی حیثیت سے ہندو مذہب مبہم اور غیرمعین پہلو رکھتا ہے۔ 

ہندو دنیا کی پست ہمت اور عسکری روایات سے محروم واحد قوم ہے۔ 

جس میں شجاعت و بہادری کی بجائے تعصب ، کینہ پروری اور تنگ نظری کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ 

اگرچہ اہلِ ہند کو حکمرانی کے بہت سے مواقع ملے مگر سازگار ماحول کے باوجود وہ کوئی اچھا تاثر قائم نہ کر سکے۔

صدیوں کی غلامی نے ان کا قومی کردار ہی تباہ کر دیا تھا۔ 

گائے کے تقدس اور دوسرے جانوروں کی حرمت کے غیر فطری جذبات نے ان کی ترقی کی راہیں مسدود کر دی تھیں۔ 

برصغیر میں مسلمانوں نے اپنی آمد کے بعد گروہی اور طبقاتی تقسیم ختم کرکے برصغیر کو ایک وحدت میں بدلنے کا فریضہ انجام دیا ۔

ہندوستان میں دو قومی نظریہ کے تحت پاکستان بنا کہ ہندو معاشرے کی گندی رسومات ، رواجات اور ثقافت اسلام سے متصادم تھی اور ہے۔

 جس معاشرے میں انسان کے درجات قبائل کی بنیاد پر ہوں ، جہاں کا نظام طبقاتی ہو، جہاں شوہر کے مر جانے کی صورت میں اس کے بھائی کے ساتھ شادی کو مذہبی حیثیت حاصل ہو۔

سائنسی ترقی اور علمی عروج کے دور میں بھی اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کی جاتی ہو۔ 

گائے کا پیشاب برکت کا باعث ہو، مرتے وقت گاؤ موتر بطور شفاء و آسانیِ نزع کے لئیے استعمال ہو۔

گنگا جمنا میں مرد و زن کے مخلوط اجتماع میں نہایا جائے، جو اپنے مُردوں کو اس لئیے جلا دے کہ اسے بعدِ مرگ حساب نہ چکانا پڑے۔ 

جہاں درخت مقدسات میں شامل ہوں ، جنم کنڈلیوں پر زندگی ترتیب دی جائے، کسی مخصوص جگہ رشتہ کرنا مقصود ہو تو اس کی نحوست زائل کرنے کے لئیے بندر، کتا اور درخت سے حفاظتی شادیاں کی جائیں۔ 

جہاں مذہبی رسوم کے رہنما ننگے بیٹھے ہوئے پنڈت خوبرو خواتین پر جنسی غلاظت نکالیں اور جہاں زندگی کا ہر ہر کام وہم اور خیالات پر مبنی ہو وہاں اسلام اور مسلمان نہیں رہ سکتا ۔ ( سید علی)

 

اسلام اپنے قوانین ، شریعت اور ثقافت کے ساتھ دنیا میں موجود ہے ۔ 

دو قومی نظریہ ایک آفاقی نظریہ ہے ۔ 

اسلام دنیا کے ہر کونے میں پہنچ چکا ہے ۔ 

اہل کتاب مشرکین ضرور ہیں مگر ان پر شریعتیں آئیں اور انبیاء بھی تشریف لائے ۔

انہوں نے انبیاء کا انکار کیا ، کتب میں ترمین کی مگر وہ اہلِ شریعت ضرور ٹھہرے ۔ 

 

پوری دنیا میں ایک ہندوستان ایسا ملک ہے جہاں آج تک بتوّں کی پوجا ہو رہی ہے۔ 

وہ وقت دور نہیں جب اس خطے میں موجود ہر بت پاش پاش ہو جائے گا اور پھر کلہاڑی بڑے بت کے کندھے پر رکھ دی جائے گا ۔ 

وہی دن دو قومی نظریہ کی تکمیل کا دن ہو گا ۔۔۔ ان شاء اللہ ۔۔۔۔ 

 

دو قومی نظریہ ہر مسلمان کے دل و دماغ میں موجود ہے ، کفر و شرک اور اور ان کی ثقافت سے بیزاری و نفرت اس نظریہ پر عمل کا بہترین ثبوت ہے ۔ 

دو قومی نظریہ ہر اس جگہ موجود ہے جہاں مسلمان موجود ہے ۔ 

آفاقی نظریہ پورے آفاق میں سفر کر ہا ہے ۔۔۔ 

مسلمان بد عمل ہو سکتا ہے ۔۔۔ 

سست، غافل ہو سکتا ہے ۔۔۔ 

مگر بے غیرت نہیں ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ 

کیونکہ اس نظریہ کی خاطر ہم نے مدینہِ اور حبشہ کی ہجرت کی ۔۔۔ 

اس نظریہ کی خاطر تاریخِ انسانیت کی سب سے بڑی ہجرت ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہوئی ۔۔۔ 

اس نظریہ کی بقا کے لئیے آج تک لاکھوں ماؤں کی گود خالی ہوئی ، سہاگ اجڑے ، بچے یتیم ہوئے ، املاک لٹ گئیں ، پورے پورے خاندان اجڑ گئے ۔۔۔ 

اور ۔۔۔۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جگر پارے حسین ابن علی رضی اللہ عنہم نے کربلا پر ڈیرے ڈالے اور ۔۔۔ 

آخر میں یہ بھی یاد رکھئیے کہ اسی نظریہ کو بچانے کے لئیے 1947 میں ہماری ماؤں اور بہنوں کی چھاتیاں کاٹی گئیں۔

انہیں زبردستی حاملہ کیا گیا اور آج ان عصمت و عزت والی ماؤں کے بطن سے پیدا ہونے والے سینکڑوں ہزاروں بچوں کے نام ہندو اور سکھ ولدیت کے ساتھ شنکر ، رام ، دیپک ، کلونت، پرکاش، ونود، اتم اور سنگھ سے موسوم ہیں ۔ 

اس دو قومی نظریہ پر مہر حق اس وقت ثبت ہو جاتی ہے جب ہم دنیا میں آنے والے اپنے ہر بچے کے کان میں محبت سے سرگوشی کرتے ہوئے اسے اشہد الا الٰہ الا اللہ و اشہد انّ محمد الرسول اللہ کا کلمہ حق سنا کر باطل کے سینے میں خنجر گھونپ دیتے ہیں ۔ 

یہ نظریہ صبحِ قیامت تک زندہ رہے گا اور ہم اس نظریہ کی حفاظت کے لئیے سر بکفن ہیں ۔

 

دو قومی نظریہ حصّہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سوموار 29 دسمبر 1930 علامہ اقبال کا نظریہ پاکستان 29 دسمبر 1930ء کو الہٰ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اپنے صدارتی خطاب میں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ نے اپنا مشہور زمانہ "نظریہ پاکستان" پیش کیا تھا. 

جس میں انہوں نے تجویز کیا تھا کہ : "میری خواہش ہے کہ پنجاب ، سندھ ، شمال مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ہی ریاست میں مدغم کر دیا جائے ۔ 

مجھے تو ایسا نظر آتاہے کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں سلطنت برطانیہ کے اندر یا اس کے باہر حکومت خود اختیاری اور شمالی مغربی متحدہ مسلم ریاست آخر کار مسلمانوں کا مقدر ہے ۔

 

ابتداء میں نظریہ پاکستان کے بارے میں خاصا ابہام رہا۔ 

علامہ اقبال اور 'پاکستان' نام کے خالق چوہدری رحمت علی نے بھی جس آزاد اسلامی مملکت کا خیال پیش کیا تھا اس میں بنگال شامل نہیں تھا. 

حالانکہ وہ بھی ایک مسلم اکثریتی علاقہ تھا۔ 

23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور میں بھی مسلمانوں کے لیے ہندوستانی حدود میں رہتے ہوئے آزاد ریاستوں کی بات کی گئی تھی. 

لیکن 9 اپریل 1946ء کی قرارداد دہلی میں پہلی بار "نظریہ پاکستان" پر ایک واضح پالیسی اختیار کی گئی تھی اور "دو قومی نظریہ" کے علاوہ ایک الگ وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا جو ہندوستانی آئین کے ماتحت نہ ہو ۔

 

نظریہ پاکستان کیا تھا ؟

قرارداد دہلی 1946ء کے مطابق نظریہ پاکستان کی یہ تشریح کی گئی تھی : ہندوستان کے دس کروڑ مسلمان ایک ایسے دین کے پیروکار ہیں کہ جو ان کی زندگی کے ہر شعبہ بشمول تعلیم ، سماج ، معیشت اور سیاست پر حاوی ہے اور جس دین کا ضابطہ روحانی عقائد ، ایمان اور رسم و رواج تک محدود نہیں ہے۔ 

یہ دین ، اس ہندو دھرم اور فلاسفی سے متصادم ہے جس نے ہزاروں سالوں سے ذات پات کے تنگ نظر نظام کو قائم کیا اور جس کے نتیجے میں ہندوستان کے کروڑوں انسان پس ماندہ ہو کر اچھوت بن کررہ گئے ہیں اور انسانوں کے درمیان غیر فطری دیواریں حائل ہوگئی ہیں۔ 

اس ملک کے باشندوں کی بڑی تعداد پر سماجی اور معاشی عدم مساوات کے توہمات مسلط ہوگئے ہیں جس سے مسلمانوں ، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ معاشرتی اور معاشی حیثیت سے ایسی غلامی میں مبتلا ہو جائیں گے جس سے نجات ممکن نہیں ہوگی ۔ 

ہندوؤں کا ذات پات کا نظام براہِ راست قومیت ، مساوات ، جمہوریت اور اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے ۔ (سید علی)

 

تاریخی پس منظر ، روایات ، ثقافت ، سماجی اور معاشی نظاموں کے اختلاف نے ایک ہندوستانی قوم کی تشکیل کو ناممکن بنا دیا ہے ۔ 

اس کے لیے مشترک تمنائیں اور تصورات ہی موجود نہیں ہیں ۔ 

ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں ۔

 

ہندوستان میں برطانوی پالیسی کے مطابق مغربی جمہوریت کی روشنی میں اکثریت کے اصول پر مبنی سیاسی ادارے قائم کیے گئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک قوم کی اکثریت کی رائے دوسری قوم پر اس کی مخالفت کے باوجود مسلط کردی جائے گی۔ 

جیسا کہ ہندو اکثریت رکھنے والے صوبوں میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے آئین کے تحت کانگرسی حکومتوں کے ڈھائی سالہ دور سے اچھی طرح ظاہر ہوگیا ہے ۔ 

جب مسلمانوں پر ناقابل بیان مصائب ڈھائے گئے اور جس کے نتیجے میں انھیں یقین ہوگیا کہ ایکٹ اور گورنروں کے ہدایت ناموں میں نام نہاد تحفظات فضول اور بے اثر ہیں۔ متحدہ وفاق میں مسلم اکثریت والے صوبوں کے مسلمانوں کا انجام بھی بہتر نہیں ہوگا اور مرکز میں ہندوؤں کی اکثریت کی وجہ سے مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ نہیں ہوسکے گا ۔

 

مسلمانوں کو یقین کامل ہے کہ مسلم ہند کو ہندوؤں کے تسلط سے بچانے کے لیے اور انہیں اپنی قابلیت کے مطابق ترقی کرنے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ضرورت ہے ایک آزاد اور بااختیار ریاست قائم کی جائے ۔ (سید علی)

 

پاکستان اور ہندوستان کی اقلیتوں کو اس طریقہ پر تحفظات دئیے جائیں جو آل انڈیا مسلم لیگ نے 23 مارچ 1940ء کو لاہور کی قرارداد میں پیش کیے تھے۔ 

مرکزی عبوری حکومت میں مسلم لیگ کے تعاون اور اس کی شرکت کے لیے یہ شرط لازم ہے کہ مسلم لیگ کا پاکستان کا مطالبہ منظور کیا جائے اور بلا تاخیر نفاذ کی ذمے داری لی جائے ۔

 

23 مارچ 1940ء کی "قرارداد لاہور" یا "قرارداد پاکستان" میں مسلم لیگ کے رہنما پاکستان کے بارے میں واضح اور یکسو نہیں تھے اس لیے "قرارداد لاہور" میں ایک ریاست کی بجائے ’’ریاستوں‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ 1946ء کی متفقہ قرارداد میں پہلی بار ایک الگ ریاست پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ (سید علی)

 

قرارداد دہلی ، برصغیر کے مسلمانوں سے دھوکہ؟

ناقدین کی رائے میں قرارداد دہلی ، برصغیر کے مسلمانوں کے مینڈیٹ کے ساتھ دھوکہ تھا کیونکہ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے متحدہ ہندوستان کی حدود میں رہتے ہوئے آزاد اور خودمختار مسلم ریاستوں کو وؤٹ دیا تھا نہ کہ ایک الگ تھلگ اور بھارت دشمن پاکستان کے لیے۔ 

ان کی رائے میں بھارت کے مسلمان ، "نظریہ پاکستان" کو وؤٹ دینے کی بھاری قیمت ادا کررہے ہیں۔ 

یہی وجہ ہے بھارتی مسلمان ، قائداعظم کو اچھے نام سے یاد نہیں کرتے اور انھیں تحریک آزادی کے رہنماؤں میں شامل نہیں کرتے ۔ 

اس کنونشن میں متحدہ ہندوستان کی 11 صوبائی اسمبلیوں کے 56 مسلم اراکین ، مرکزی اسمبلی کے 10 اراکین اور کونسل آف سٹیٹ کے 13ممبروں نے نیا پاکستان سے وفاداری کا حلف اُٹھایا تھا ۔ 

(روزنامہ انقلاب یکم جولاٸی 1937 لاہور)

 

دو قومی نظریہ قائد اعظم اور علامہ اقبال علیہما الرّحمہ کے افکار کی روشنی میں

 

یہ عجیب اتفاق ہے کہ اسلام کے نام پر اسلامیانِ ہند کی بے نظیر جدوجہد کے نتیجے میں بننے والی ریاست ’’پاکستان‘‘ کا وجود آج سوالیہ نشان بنایا جارہا ہے۔ 

سیکولر فکر کے نمائندہ خواتین و حضرات کچھ عرصہ سے نظریہ پاکستان کی اصطلاح کا سرے سے انکار کررہے ہیں۔ 

ان کی دلیل یہ ہے کہ اقبال اور قائداعظم نے تحریک پاکستان کے دوران یہ لفظ استعمال نہیں کیا تو بعد میں اس کی رٹ کیوں لگائی جارہی ہے؟ 

ذیل میں ہم اسی بنیادی غلط فہمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ 

ثانیاً اس حقیقت کو واضح کرنا مقصود ہے کہ نظریہ پاکستان کی اساس اسلام کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ 

پاکستان محض زمین کے ٹکڑے کے طور پر حاصل نہیں کیا گیا تھا بلکہ بانیانِ پاکستان نے اسے اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب دیکھا تھا ۔

 

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام ایک نظریے کے تحت عمل میں آیا ۔ 

نظریہ پاکستان کی سی حیثیت پاکستان کے وجود میں روح کی ہے جس کے بغیر پاکستان کے قیام کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ 

تحریک پاکستان کے دوران مسلمانان ہند شعوری طور پر ایک نظریے کے تحت آزاد مسلمان مملکت کے قیام کی جدوجہد کر رہے تھے۔ 

یہ ایک المیہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی نظام کی بے ثمریت، ریاستی و ادارتی بے مقصدیت اور قومی سطح کی بے شعوری کے باعث قیام پاکستان کے تقریباًپون صدی بعد نظریہ پاکستان پر تنازعہ کھڑا کر دیا گیا ہے اور یہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ ہم نظریہ پاکستان کو تلاش کریں، 

اس کی تعریف متعین کریں اور یہ فیصلہ کریں کہ کیا نظریہ پاکستان کی کوئی حقیقت بھی ہے ؟

 

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور نظریہ پاکستان

 

قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں فکر اقبال کی مرکزی حیثیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ہر بڑی تحریک کا ایک مفکر ہوتا ہے، 

ہماری تحریک کا مفکر اقبال ہے ۔ 

اقبال نے زندگی کے ہر مرحلے پر عملی اور فکری دونوں لحاظ سے نہ صرف جاندار کردار ادا کیا بلکہ قوم کی واضح رہنمائی بھی کی۔ 

اقبال کا دسمبر 1930ء کاخطبہء الہ آباد ہماری تحریک آزادی کا میگناکارٹا قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

اس خطبہ میں جہاں اقبال نے مسلمانانِ ہند کے مستقبل کے مقدر کے حوالے سے بصیرت افروز گفتگو کی وہاں اس نظریاتی اساس کو بھی متعین کر دیا جس پر آگے چل کر مسلمانانِ ہند کی جدوجہدِ آزادی استوار ہوئی اور سترہ سال کے عرصے میں انہوں نے پاکستان کی منزل کو پا لیا ۔ 

خطبہ الہ آباد بیک وقت فکری و نظریاتی اور عملی و دستوری پہلووں کا احاطہ کرتا ہے ۔ آئیے اس خطبہ میں موجود اہم نکات پر ایک نظر ڈالتے ہیں :

 

1۔ سیاسی راہ عمل۔۔ اسلام

 

علامہ نے مسلمانان ہند کے مستقبل کے لیے راہ عمل متعین کرتے ہوئے فرمایا:

 

’’میں زندگی بھر کے مطالعے کے بعد اسلام کو بطور ایک عالمگیر حقیقت کے دیکھنے کی استعداد حاصل کر چکا ہوں۔ 

لہذا جب بھی مسلمانانِ ہند کے لیے کوئی سیاسی راہ عمل متعین کروں گا تو وہ اسلام ہی کے اصولوں سے ماخوذ اور مستنبط ہو گی۔ 

میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلام، اس کے نظام سیاست و قانون، اس کی ثقافت، اس کی تاریخ اور اس کے ادب کے مطالعہ میں صرف کیا ہے۔ 

میرا خیال ہے کہ روح اسلام کے ساتھ مسلسل تعلق کی بدولت جس کا اظہار وقت کے ساتھ ہورہا ہے، میرے اندر اسلام کو ایک اہم عالم گیر حقیقت کی حیثیت سے دیکھنے کی بصیرت پیدا ہوگئی ہے۔ 

چنانچہ یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہندوستان کے مسلمان اسلام کی روح سے اپنی وابستگی برقرار رکھیں گے، میں اپنی اس بصیرت کی روشنی میں، جس کی قدر و قیمت خواہ کچھ ہو، آپ کے فیصلوں میں آپ کی راہ نمائی کرنے کا دعویٰ تو نہیں کرتا تاہم آپ کے دل میں اس بنیادی اصول کا احساس پیدا کرنے کی ایک عاجزانہ کوشش کروں گا جس پر میرے خیال میں ان تمام فیصلوں کا عموماً انحصار ہونا چاہیے ۔

 

2۔ اسلام ہی نظریہ پاکستان کی اساس کیوں ؟

 

اسلام کو اساس بنانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ نے فرمایا : وہ اسلام کو ایک ایسی زندہ قوت سمجھتے ہیں جس کے مستقبل سے وہ قطعاً مایوس نہیں بلکہ وہ اسے ایک ایسی تقدیر کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جس کا فیصلہ کوئی دوسری تقدیر نہیں کر سکتی۔ 

آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی صدارت کے لیے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے جو اس امر سے مایوس نہیں ہے کہ اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو انسان کے تصور کو جغرافیائی حدود سے آزاد کرا سکتی ہے؟ 

جس کا یہ عقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست کی زندگی میں بے انتہا اہمیت حاصل ہے اور جس کا ایمان ہے کہ اسلام بجائے خود تقدیر ہے اسے کسی دوسری تقدیر کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ 

ایسا شخص مجبور ہے کہ معاملات کو خود اپنے ہی نقطہ نگاہ سے دیکھے۔ یہ خیال نہ کریں کہ جس مسئلے کی طرف میں اشارہ کررہا ہوں وہ محض ایک نظری مسئلہ ہے۔ یہ ایک زندہ اور عملی مسئلہ ہے جس سے اسلام کے دستور حیات اور نظام عمل کے تار و پود متاثر ہوسکتے ہیں ۔ 

ہندوستان میں ایک ممتاز ثقافت وحدت کی حیثیت سے صرف اس مسئلے کے صحیح حل پر آپ کے مستقبل کا انحصار ہے۔ ہماری تاریخ میں اسلام پر آزمایش کا ایسا سخت دور کبھی نہیں آیا تھا جیسا کہ آج درپیش ہے۔ 

ایک قوم کو یہ حق تو حاصل ہے کہ وہ اپنے معاشرتی ڈھانچے کے بنیادی اُصولوں میں ترمیم کرے یا ان میں نئے معنی تلاش کرے یا انھیں بالکل مسترد کردے، 

لیکن نئے تجربات کرنے سے پہلے واضح طور پر یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ 

میں نہیں چاہتا کہ جس انداز سے میں اس اہم مسئلے کو دیکھ رہا ہوں، اس سے یہ خیال پیدا ہو کہ جن حضرات کی سوچ میری سوچ سے مختلف ہے، 

میں ان سے جھگڑا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا اجتماع مسلمانوں کا اجتماع ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ اسلام کے مقاصد اور اس کی روح سے وفادار رہنے کے خواہش مند ہیں۔ 

میرا واحد مقصد یہ ہے کہ موجودہ صورت حال کے بارے میں جو میری دیانت دارانہ رائے ہے اس کا صاف صاف اظہار کردوں۔ 

میرے خیال میں صرف یہی ایک صورت ہے کہ میں آپ کے سیاسی عمل کی راہوں کو اپنے عقائد کی روشنی سے منور کرسکوں‘‘۔

 

3۔ اسلام اور وحدتِ انسانیت

 

خطبہ الہ آباد اسلام کے تہذیبی، معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی پہلووں کو جس طرح بیان کرتا ہے وہ ہماری تاریخ میں اسلام کے تہذیبی جوہر کو منکشف کرنے کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ 

علامہ نے اسلام کے مزاج اور اسلام کی نگاہ میں انسانیت کی وحدت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’اسلام انسان کی وحدت کو مادے اور روح کی متضاد دوئی میں تقسیم نہیں کرتا۔ اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست ایک کل کے مختلف اجزاء ہیں۔ 

انسان کسی ناپاک دنیا کا باشندہ نہیں ہے جسے کسی ایسی دنیا کی خاطر ترک کرے جو کہیں اور واقع ہے۔ اسلام کے نزدیک مادہ روح کی وہ شکل ہے جو زماں و مکاں میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ 

یورپ نے غالباً مانویت کے زیر اثر روح اور مادے کی دوئی کو بلاغور و فکر قبول کرلیا ہے۔ اس کے بہترین مفکر اس ابتدائی غلطی کو آج محسوس کررہے ہیں، 

لیکن اس کے سیاست دان بالواسطہ دنیا کو مجبور کررہے ہیں کہ اسے ناقابل انکار عقیدے کے طور پر تسلیم کرلیں۔ 

دراصل روحانی اور دنیاوی زندگی میں امتیاز کرنے کا یہی غلط اصول ہے جس سے یورپ کا مذہبی اور سیاسی فکر زیادہ طور پر متاثر ہوا ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یورپ کی ریاستوں سے عیسائیت عملی طور پر بالکل بے دخل ہوچکی ہے۔ 

اس سے مختلف بے ربط ریاستیں قائم ہوگئی ہیں جن میں انسانی جذبے کی بجائے قومی اغراض کی بالادستی ہے ۔ (سید علی)

 

4۔ اسلامی نظامِ سیاست

 

چونکہ علامہ مسلمانوں کے مستقبل کی سیاسی جدوجہد اور راہ عمل کا تعین اسلام کے دیئے ہوئے اصولوں کی روشنی میں کر رہے تھے۔ 

سو انہوں نے اس بات کو واضح کیا کہ اسلام ایک ایسے نظامِ سیاست کا حامل ہے جس کی بنیاد وحی ہے۔ 

وحی سے تشکیل پانے والا نظامِ سیاست بیک وقت مذہبی اور معاشرتی نصب العین کی وحدت کا حامل ہے جس میں ایک کو اختیار اور دوسرے کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ 

اگر ایک نصب العین کو مسترد یا نظر انداز کیا جائے گا تو دوسرا نصب العین خود بخود مسترد ہو جائے گا ۔ 

علامہ نے فرمایا : اس (وحی) کا فوری نتیجہ ایک ایسے نظامِ سیاست کے بنیادی اصولوں کی صورت میں ظاہر ہوا جس میں قانونی تصورات مضمر تھے اور جس کی معاشرتی اہمیت کو محض اس لیے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی بنیاد وحی و الہام پر ہے۔ اس لیے اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے مربوط و منسلک ہے جو خود اس کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ 

اگر ایک کو رد کیا گیا تو دوسرے خود بخود مسترد ہوجائے گا اس لیے ایک مسلمان اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ نظامِ سیاست کو ایسے قومی خطوط پر مرتب کیا جائے جس سے اسلام کے اصول اتحاد کی نفی ہوجائے‘‘۔ (سید علی)

 

5۔ نظامِ سیاست و ریاست کے احیاء کی ضرورت

 

سو جب ملت اسلامیہ وحی سے حاصل ہونے والے عالمگیر نظامِ ریاست و سیاست کی امین ہے تو یہ ضروری ہے کہ وہ اس نظامِ سیاست و ریاست کی دور نو کے مطابق از سر نو تشکیل اور تدوین کرے ۔ 

علامہ نے فرمایا : دنیائے اسلام میں ایک عالم گیر نظام ریاست موجود ہے جس کے بنیادی نکات وحی و تنزیل کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں لیکن ہمارے فقہا جدید دنیا سے بے تعلق رہے ہیں، اس لیے موجودہ زمانے میں انھیں از سر نو مرتب کرکے مستحکم کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

 

یہ وہ اعلیٰ و ارفع مقاصد تھے جن کو پیش نظر رکھتے ہوئے علامہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے خطبہ صدارت میں مسلمانوں کے مستقبل کی راہ عمل متعین فرما رہے تھے۔ 

یہ علامہ کی بصیرت تھی کہ انہوں نے تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا : اگر ملت اسلامیہ نے اسلام کے دیئے گئے عالمگیر نظامِ ریاست و سیاست کی تشکیل نو کرنی ہے تو اس کےلیے سب سے مناسب ترین خطہ ہندوستان ہے۔ 

کیونکہ ہندوستان ہی وہ ملک ہے جہاں اسلام ایک بہترین انسانیت ساز قوت کی حیثیت سے ظہورپذیر ہوا ہے۔ 

حقیقت میں یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ دنیا بھر میں شاید ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلام ایک بہترین مردم ساز قوت کی حیثیت سے جلوہ گر ہوا ہے‘‘۔

 

علامہ نے برصغیر کی تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مسلمانانِ ہند کی قومی زندگی میں اسلام بطور اخلاقی نصب العین اور سیاسی نظام کے ایک اہم جزو رہا ہے۔ 

لہذا جب بھی دورِ نو کے تقاضوں کے مطابق اسلام کے نظامِ سیاست و ریاست کی تشکیل نو کرنی ہو گی تو ہندوستان کے خطے اور یہاں کے باسیوں کے کردار کو پیش نظر رکھنا ہو گا ۔ 

علامہ فرماتے ہیں : یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام بطور ایک اخلاقی نصب العین اور سیاسی نظام مسلمانانِ ہند کی تاریخ کا اہم ترین جزو ترکیبی رہا ہے۔ 

اس اصطلاح سے میری مراد ایک ایسا معاشرتی ڈھانچہ ہے جس کا نظم و ضبط ایک مخصوص اخلاقی نصب العین اور نظام قانون کے تحت عمل میں آتا ہے‘‘۔

 

6۔ نظریہ قومیت

 

وہ اعلیٰ مقاصد جن کا علامہ یہاں ذکر فرما رہے ہیں اگر اسلام واقعی ان مقاصد کے حصول کو اپنا ہدف قرار دیتا ہے اور ملت اسلامیہ اپنے مستقبل کو ان مقاصد کے حصول کے ساتھ منسلک اور ان کے لیے وقف کرتی ہے تو اس کی راہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہو گی وہ نظریہ قومیت ہے جس کا اس وقت جس کا پرچار کیا جا رہا تھا ۔ 

علامہ نے فرمایا : اس وقت قومیت کے نظریے نے مسلمانوں کے نقطہ نگاہ کو نسل پرستی سے آلودہ کردیا ہے اور اس طرح (یہ نظریہ) اسلام کے انسانیت پرور مقاصد میں بری طرح حائل ہورہا ہے۔ 

ممکن ہے کہ نسل پرستی کے احساسات کی ترقی ایسے معیاروں کا محرک ہو جو اسلام کے معیار سے مختلف بلکہ متضاد ہو‘‘۔

 

اس مرحلے پر علامہ نے مسلمانانِ ہند کو اس بنیادی نکتے کی طرف متوجہ کیا کہ اگروہ دورِ جدید کے نظریہ قومیت کواختیار کریں گے تو اسلام کو بطور ایک اخلاقی نصب العین کے کبھی بھی جاری نہیں رکھ سکیں گے ۔ 

آپ نے فرمایا : کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کو بطور ایک اخلاقی نصب العین تو باقی رکھیں لیکن اس کے نظام سیاست کو رد کرکے نظریہ قومیت کی بنیاد پر سیاسی نظامات اختیار کرلیں جن میں مذہبی رجحان کو کوئی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی؟ ہندوستان میں یہ سوال خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں‘‘۔

 

7۔ جداگانہ تشخص کا شعور

 

یہی وہ بنیادی اہداف تھے جن کی بنیاد پر علامہ نے برصغیر کے مسئلے کے مستقل تصفیے کے لیے ہندوستان کی تقسیم کو ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا : مسلمانان ہند کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ فرقہ وارانہ مسئلے کے مستقل تصفیے کے لیے برطانوی ہندوستان کی از سر نو تقسیم کی جائے‘‘۔

 

ماضی میں بر صغیر کی مسلمان قیادت نے ایسے وہ تمام فیصلے جو مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کی قربانی دیتے ہوئے کیے علامہ نے ان کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ ان دونوں نمایاں فیصلوں یعنی میثاقِ لکھنو اور تجاویز دہلی کو ایسے سیاسی گڑھوں سے تعبیر کیا کہ اگر مسلمان ان میں گھِرے رہے تو مستقبل میں ان کے لیے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کا کوئی بھی موقع باقی نہیں بچے گا۔ علامہ نے اس جانب متوجہ کرتے ہوئے فرمایا : مسلمان سیاسی لیڈر دو گڑھوں میں گر چکے ہیں ۔ 

پہلا گڑھا مسترد شدہ ’’میثاق لکھنو‘‘ تھا جو ہندوستان قومیت کے غلط تصور کی پیداوار تھا۔ اس سے مسلمان ہندوستان میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے تمام مواقع سے محروم ہو گئے ۔ 

دوسرا گڑھا پنجاب کی نام نہاد دیہاتی آبادی کی خاطر اسلامی اتحاد کی عاقبت نااندیشانہ قربانی تھی جس کا اظہار ایک ایسی تجویز میں ہوا جس سے پنجاب کے مسلمان اقلیت میں رہ جاتے ہیں۔ مسلم لیگ کا فرض ہے کہ وہ میثاق اور تجویز دونوں کی مذمت کرے‘‘۔

 

8۔ علیحدہ ریاست کی ضرورت کیوں ؟

 

علامہ نے فرمایا : مسلمان اگر اسلام کو بطور ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو وہ کسی بھی وقتی یا محدود مفاد کو حاصل کرنے کےلیے اپنے اجتماعی اہداف کی قربانی دینے کی بجائے ہندوستان کے کسی ایک مخصوص علاقے میں اپنی حکومت بنائیں ۔

 

آپ نے فرمایا : ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے ۔ 

اسلام کو بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرسکے‘‘۔

 

پھر اس بات کو مزید بڑھاتے ہوئے علامہ نے پیغمبرانہ آہنگ سے ہندوستان کے مستقبل کے حوالے سے وہ الفاظ ارشاد فرمائے جو 14 اگست 1947ء کو ایک حقیقت بن گئے : میں ذاتی طور پر ان مطالبات سے بھی ایک قدم آگے جانا چاہتا ہوں جو اس قرارداد میں پیش کیے گئے ہیں۔ 

میری خواہش ہے کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست بنا دیا جائے۔ 

مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مربوط مسلم ریاست، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر خود اختیاری حاصل کرے یا اس کے باہر، ہندوستان کے شمالی مغربی مسلمانوں کا آخرکار مقدر ہے‘‘۔

 

علامہ جب ہندوستان میں مسلمانوں کےلیے خود مختاری کا مطالبہ فرما رہے تھے تو ان کے پیش نظر ہندوستان اور اسلام دونوں کا مفاد تھا۔ ہندوستان کا مفاد بایں معنی کہ اس سے توازنِ طاقت پیدا ہو اور اسلام کا مفاد بایں معنی کہ صدیوں سے اسلام پر جو عرب شہنشاہیت کے اثرات مسلط ہو چکے تھے، 

جن کے باعث اسلام کی اصل روح منکشف ہونے سے عاری رہی تھی ہندوستان میں مسلمانوں کی آزاد اور خود اختیاری حکومتوں کے قیام سے اسلام کو اس عربی ملوکیت اور شہنشاہیت کے اثرات سے نکلنے کا موقع ملے گا ۔ آپ نے فرمایا : میں ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کےلیے ایک متحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں ۔ 

اس سے ہندوستان کے اندر توازن قوت کی بدولت امن و امان قائم ہوجائے گا اور اسلام کے لیے ایک مواقع فراہم کرے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہوجائے جو عربی شہنشاہیت (Arabian Imperialism) نے اس پر ڈال دیے تھے اور اپنے قوانین، اپنی تعلیم اور اپنی ثقافت کو حرکت میں لاکر ان کی اصل روح اور عصر جدید کی روح سے رابطہ قائم کرسکے‘‘۔

 

9۔ اسلامی ریاست اور اقلیتوں کے حقوق

 

جب علامہ نے ایک الگ اور خود اختیار حکومت کے حامل خطے کا مطالبہ کیا تو لازمی تھا کہ دوسرے مذاہب سے وابستہ لوگوں کے دلوں میں کچھ خطرات پیدا ہوتے ۔

 

علامہ نے اس کا ازالہ کرنے کےلیے اسلام کی بنیادی تعلیمات کا ذکر فرمایا۔ اسلام ہمیں اقلیتوں کے تمام اصول، قوانین، شعائر، مذہبی اداروں اور عبادت گاہوں کے تحفظ کی تعلیم دیتا ہے ۔ 

آپ نے فرمایا : جو فرقہ دوسرے فرقوں کی طرف بدخواہی کے جذبات رکھتا ہو وہ نیچ اور ذلیل ہے ۔ میں دوسری قوموں کے رسوم، قوانین، معاشرتی اور مذہبی اداروں کا بے حد احترام کرتا ہوں۔ 

یہی نہیں بلکہ قرآن پاک کی تعلیم کے مطابق ضرورت پڑے تو ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت بھی میرا فرض ہے۔ 

اس کے باوجود مجھے اس جماعت سے محبت ہے جو میری حیات اور میرے اوضاع و اطوار کا سرچشمہ ہے اور جس نے مجھے اپنا مذہب، اپنا ادب، اپنی فکر اور اپنی ثقافت دے کر میری تشکیل اس صورت میں کی ہے کہ جیسا میں ہوں اور اس پر میرے ماضی کو ازسر نو زندہ کرکے وہ میرے شعور کا ایک زندہ و فعال عنصر بن چکی ہے‘‘۔ 

(سید علی)

بلکہ وہ اقلیتیں جنہیں قرآن مجید نے اہل کتاب کہا ہے ایسی ملت ہیں جن کے ساتھ نکتہ اشتراک پر اتحاد و یگانگت کی دعوت خود قرآن حکیم نے دی ہے ۔ 

اقبال فرماتے ہیں : وہاں کی اقلیتیں قرآن کے الفاظ میں ’’اہل کتاب‘‘ میں سے ہیں۔ کسی یہودی، عیسائی یا زرتشتی کے چھونے سے مسلمان کا کھانا ناپاک نہیں ہوتا اور اسلامی قانون اہل کتاب کے ساتھ مناکحت کی اجازت دیتا ہے۔ 

حقیقت میں اسلام نے پہلا قدم انسانیت کے اتحاد کی طرف اٹھایا، وہ یہی تھا کہ جن لوگوں کو اخلاقی نصب العین ایک سا تھ انھیں اتحاد و اتفاق کی دعوت دی۔ 

قرآن پاک کا ارشاد ہے: ياَهْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآءٍ م بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ.

(آل عمران:64)

’’اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے‘‘۔

 

اسلام کی وہ تعلیم جو صدیوں سے یورپ اور مسلم دنیا اور عیسائیوں کے درمیان ہونے والے تنازعوںکے باعث پس منظر میں جا چکی ہے اب موقع ہے کہ اس تعلیم کے لامحدود معنی کو عملی صورت دی جائے۔ 

اس حوالے سے علامہ نے فرمایا : مسلمانوں اور عیسائیوں کی جنگوں اور اس کے بعد مختلف صورتوں سے یورپ کی جارحیت کے باعث دنیائے اسلام میں اس آیت کے لامحدود معنوں میں عمل نہ ہو سکا۔ 

آج بلاد اسلامیہ میں یہ مقصد مسلم قومیت کی شکل میں بتدریج پورا ہو رہا ہے‘‘۔

 

اسی طرح علامہ نے ہندوؤں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ خود مختار مسلم ریاستوں کے قیام سے ہندو یہ مت سمجھیں کہ اس طرح مذہبی حکومتیں قائم ہوجائیں گی جہاں کسی دوسرے مذہب کو کسی طرح کی آزادی، تحفظ کا تقدس حاصل نہ گا بلکہ یہ تو خود اسلام کی بنیادی تعلیم کے خلاف ہے : ہندوؤں کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے کہ خودمختار مسلم ریاستوں کے قیام سے ایک طرح کی مذہبی حکومتیں (Religious Rule) قائم ہوجائیں گی۔ 

اس سے پہلے میں بتا چکا ہوں کہ اسلام میں مذہب کا مفہوم کیا ہے۔ 

حقیقتاً اسلام میں کلیسیائی نظام نہیں ہے۔ 

یہ ایک ایسی ریاست ہے جس کا اظہار روسو سے بھی بہت پہلے معاہدہ عمرانی کی صورت میں ہوچکا تھا۔ 

اس کے پیچھے ایک اخلاقی نصب العین ہے جو انسان کو کسی خاص علاقے کی سرزمین سے وابستہ نہیں سمجھتا بلکہ وہ ایک روحانی ہستی ہے جو ایک اجتماعی معاشرتی نظام کا زندہ و متحرک جزو اور چند حقوق و فرائض کا حامل ہے‘‘۔

 

10۔ منظم کاملیت اور اجتماعی خودی کی ناگزیریت

 

علامہ نے خطبے کا اختتام کرتے ہوئے جو آفاقی اور ابدی اہمیت کے حامل الفاظ ارشاد فرمائے وہ قرآن حکیم ہی کی ایک آیہ مبارکہ کی تفسیر ہیں اور وہ آج بھی ہمارے لیے ایک روشن راهِ عمل ہیں ۔ 

علامہ نے فرمایا : موجودہ بحران سے نمٹنے کےلیے ہماری ملت کو مستقبل قریب میں ایک آزادانہ راہ عمل اختیار کرنی پڑے گی اور آزادانہ سیاسی راہ عمل ایک مقصد پر مرکوز ہو۔ 

کیا آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ متحدہ عزم کے لیے منظم کا ملیت حاصل کر لیں؟ بے شک یہ ممکن ہے۔ 

فرقہ بندی اور نفسانیت کی قیود سے آزاد ہو جائیے۔ اپنے انفرادی اور اجتماعی اعمال کی قدر و قیمت کا اندازہ کیجیے خواہ وہ مادی اغراض ہی سے متعلق کیوں نہ ہوں۔ 

اس نصب العین کی روشنی میں، جس کی آپ نمایندگی کر رہے ہیں، مادہ سے گزر کر روحانیت کی طرف آئیے۔ 

مادہ کثرت ہے۔ روح نور ہے، حیات ہے، وحدت ہے، مسلمانوں کی تاریخ سے میں نے ایک سبق سیکھا ہے کہ آڑے وقتوں میں مسلمانوں کو اسلام نے بچایا ہے، مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی۔ 

اگر آج آپ اپنی نظریں اسلام پر جما دیں اور اس کے زندگی بخش تخیل سے متاثر ہوں تو آپ اپنی پراگندہ قوتوں کو از سر نو جمع کر لیں گے اور اپنی صلابت کردار کو دوبارہ حاصل کر لیں گے۔ 

اس طرح آپ اپنے آپ کو مکمل تباہی سے بچا لیں گے۔ قرآن مجید کی ایک نہایت معنی خیز آیت یہ ہے کہ پوری انسانیت کی موت و حیات بھی فرد واحد کی موت و حیات کی طرح ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ آپ جو سب سے پہلے انسانیت کے اس بلند وارفع تصور پر عمل پیرا ہوئے، اسی اصول پر جئیں اور آگے بڑھیں اور اپنے آپ کو ایک نفس واحد کی طرح رکھیں۔ 

میں جب یہ کہتا ہوں کہ ہندوستان کی حالت وہ نہیں جو بظاہر نظر آتی ہے تو میرا مقصد کسی کو حیرت میں ڈالنا نہیں ہے۔ 

بہرحال اس کے صحیح معنی آپ پر اس وقت آشکار ہو جائیں گے جب آپ ان کے مشاہدے کےلیے ایک صحیح اجتماعی خودی پیدا کر لیں گے ۔ 

قرآن کے الفاظ میں : عَلَيْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا يَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۔

’’تم اپنی جانوں کی فکر کرو، تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو‘‘۔ 

(سورہ المائدة:105)

 

قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ اور نظریہ پاکستان

 

تحریک پاکستان کے دوران تحریک آزادی کے قائدین اس امر سے آگاہ تھے کہ وہ جس وطن کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں اس کامقصد ا ورہدف کیا ہے، اور کس نظریے کی بنیاد پر وہ اس جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

 

علامہ اقبال کے نظریات و افکار سے آگاہی کے بعد قائداعظم کے افکار کا مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ کس مقصد کے حصول کے لئے تگ و دو کررہے تھے، 

آیئے اُنہی کی زبانی سنتے ہیں :

 

1۔ حقانیتِ اسلام

 

قائد اعظم نے یکم فروری 1943ء کو اسماعیل کالج بمبئی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام صرف مذہب کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات (Complete Code of Life) ہے۔ 

انہوں نے فرمایا :

Islam means peace with God and peace with man

 

یکم جنوری 1938ء کو گیا کے مسلمانوں کی طرف سے دیئے گئے استقبالیے کے جواب میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ : مسلم لیگ کا پرچم اسلام کا پرچم ہے۔ 

مسلم لیگ کو اسلام سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ 

لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم سیاست میں مذہب کو داخل کر رہے ہیں۔ 

بلکہ اسلام تو مکمل ضابطہ حیات (Complete Code of Life) ہے۔ 

یہ صرف مذہب نہیں بلکہ قانون، فلسفہ اور سیاست بھی ہے۔ 

اسلام ہر اس تفصیل پر مشتمل ہے جو ہماری شب و روز کی زندگی سے متعلق ہے۔ 

جب ہم اسلام کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہی کل اسلام ہے۔ 

اسلامی نظام حیات کی اساس آزادی (Liberty)، مساوات (Equality)، اور اخوت (Fraternity) ہے۔ (سید علی)

 

Beverley Nichols کے مسلم قوم کی تعریف کے سوال کے جواب میں قائد اعظم نے فرمایا : اسلام صرف ایک مذہبی عقیدے کا نام نہیں بلکہ زندگی کے حقیقی اور عملی ضابطہ حیات (realistic and practical Code of Conduct) کا نام ہے‘‘۔

 

2۔ اسلام اور پاکستان

 

قائد اعظم نے اسلام اور پاکستان کو کبھی بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں سمجھا۔ 

آیئے اُن کے چند خطابات کے اقتباسات کا مطالعہ کرتے ہیں : اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ قیام پاکستان کے بغیر یہاں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔

4 فروری 1935ء کو مرکزی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں ہندوستان میں اپنے مذہب، زبان اور کلچر کا تحفظ چاہیے۔

19 دسمبر 1946ء کو قاہرہ میں ایک تقریر میں فرمایا کہ اگر ہندوستان میں ہندو اقتدار قائم ہو گیا تو اس کا مطلب ہو گا ہندوستان میں اسلام کا خاتمہ بلکہ دوسرے مسلمان ممالک میں بھی۔

10 مارچ 1941ء کو مسلم یونیورسٹی یونین علی گڑھ سے خطاب میں فرمایا کہ پاکستان نہ صرف قابل حصول منزل ہے بلکہ اگر ہم ہندوستان میں اسلام کو مکمل فنائیت سے بچانا چاہتے ہیں تو ہماری یہی واحد منزل ہے ۔

2 مارچ 1941ء کو پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور کے اجلاس سے خطاب میں فرمایا کہ مسلمانان ہند کے مسئلے کا واحد حل ہندوستان کی تقسیم ہے۔ 

تاکہ ہندو اورمسلم دونوں اپنے معاشی، معاشرتی و سماجی، ثقافتی اور سیاسی معیارات کے مطابق ترقی کر سکیں۔ 

ہماری جدوجہد کا مقصد صرف مادی ترقی نہیں بلکہ مسلم قوم کی روح کی بقا اور تحفظ ہے ۔ (سید علی)

 

قائد اعظم کے نزدیک اسلام اور پاکستان کے تعلق کی نوعیت کیا تھی، اس کی وضاحت بھی ان کے مختلف بیانات اور تقاریر سے ہوتی ہے۔ 

ان میں سے چند ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں :

 

یکم فروری 1943ء کو ہی اسماعیل کالج بمبئی کے طلباء خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ : اسلام مسلمانوں کی زندگی بشمول سماجی و معاشرتی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی پہلووں کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ 

پاکستان کی صورت میں ہم ایک ایسی ریاست قائم کریں گے جو اسلام کے اصولوںکے مطابق چلائی جائے گی۔ 

اس کے ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی نظام کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اس تصور سے غیرمسلموں کو خائف نہ ہونا چاہیے۔ 

کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں وہ دور حاضر کے نام نہاد جمہوری پارلیمانی نظام حکومت کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہوں گے۔ 

ہمیں مغربی طرز کی پارلیمانی یا کانگرس طرز کی حکومت نہیں چاہیے بلکہ ہم حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں جو اسلام کے مطابق ہو‘‘۔

یہاں قائد اعظم کے اس بیان میں اقبال کے روحانی جمہوریت کے تصور کی جھلک نظر آتی ہے۔

 

اس سے بھی بہت پہلے 30 دسمبر 1916ء کو لکھنؤ میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا کہ مسلمان دنیا کی ہر قوم سے زیادہ جمہوری قوم ہیں حتی کہ اپنے مذہبی معاملات میں بھی۔

 

3۔ قائداعظم اور لفظِ ’’نظریہ‘‘ کا استعمال

 

قائد اعظم نے اپنی تقاریر اور بیانات میں آئیڈیالوجی کا لفظ کئی بار استعمال کیا۔

 

13 دسمبر 1946ء کو بی بی سی اور امریکی براڈکاسٹنگ کارپوریشن سے نشر ہونے والے پیغام میں قائد اعظم نے فرمایا کہ ہندوستان کی تقسیم سے ہماری مراد دونوں قوموں کو اپنے اپنے کلچر اور آئیڈیالوجی کے مطابق آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔

24 نومبر 1945ء کو مردان میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان کے قیام کا مطلب ایسی آزاد مسلم ریاست قائم کرنا ہے جہاں مسلمان مسلم آئیڈیالوجی کو نافذ کر سکیں ۔ (سید علی)

 

15 جون 1945ء کو فرنٹئیر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام پیغام میں فرمایا کہ پاکستان کا مطلب صرف آزادی اور خودمختاری نہیں بلکہ اس مطلب مسلم آئیڈیالوجی کا تحفظ ہے کا مطلب صرف آزادی اور خودمختاری نہیں بلکہ اس مطلب مسلم آئیڈیالوجی کا تحفظ ہے۔

26 مارچ 1948ء کو چٹاگانگ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم پاکستان میں ہی انسانی ترقی کے عظیم آئیڈیلز، سماجی انصاف، مساوات اور اخوات کو عملی شکل دے سکتے ہیں۔ 

جو ایک طرف تو پاکستان کی تخلیق کے بنیادی مقاصد ہیں اور دوسری طرف ہماری نوزائیدہ ریاست کامثالی سماجی نظام تشکیل دینے کے لیے لامتناہی امکانات کے حامل بھی ہیں۔ 

پاکستان اس لیے قائم کیاگیا کہ ذات پات پر مبنی معاشرے میں انسانی روح کو مکمل تباہی سے بچایا جا سکے‘‘۔

 

قیام پاکستان کے مقاصد جو اس کی آئیڈیالوجی کے بنیادی عناصر ہیں، صرف تقاریر یا بیانات تک ہی محدود نہ تھے۔

آل انڈیا مسلم لیگ نے جو Manifesto تیار کیا تھا وہ بھی ا سکا عملی مظھر تھا۔ 

آل انڈیامسلم لیگ کی کونسل اور منشور کمیٹی کے رکن راغب احسن نے 28 اگست 1945ء کو لیاقت علی خان کو منشور کا جو مسودہ ارسال کیا وہ 3 حصوں، 16 ابواب اور 118 صفحات پر مشتمل تھا۔ 

اس کی تلخیص 38 صفحات میں کی گئی تھی۔ اس منشور کے حصہ اول کا عنوان تھا:

 

Basic Aims & Objectives: Ideals & Ideology

 

اس منشور کو تیار کرنے والے کس Visionاور بصیرت کے حامل تھے اس کا اندازہ اس کے چند عنوانات سے ہوتا ہے:

 

    Third world war will end humanity-

 

    Islam is the only escape for mankind

 

    New world order

 

    Islam and Muslims

 

    Socio- Economic Ideals of the Millat & the Muslim League

 

    Crash of Civilization & the Role of Pakistan

 

محترمہ فاطمہ جناح نے مارچ 1954ء میں ڈھاکہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ لوگ جرات اور ہمت سے کام لیں اور سراپا جدوجہد بن جائیں توا س ملک کو صحیح اسلامی آئیڈیالوجی پر استوار کر سکتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی آئیڈیالوجی کیا ہے، 

اس کا مطلب ہے جمہوریت، اخوت، سچائی اور انصاف۔ یہ اسلام کے ستون ہیں ۔

 

الغرض اسلامی آئیڈیالوجی جو نظریہ پاکستان ہی ہے تحریک پاکستان کے دوران تحریک آزادی کے قائدین کے لیے کبھی بھی کوئی اجنبی حقیقت نہیں رہا۔

زندہ قومیں اپنی نظریاتی اساس کو مستحکم کرتی ہیں اور اس کے اہداف کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کرتی اور اپنی توانائیاں وقف کر تی ہیں۔

جبکہ ہم ایک واضح نظریاتی اساس کے باوجود اسے متنازعہ بنا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نہ صرف اپنی نظریاتی اساس سے آگاہ ہوں بلکہ اس کے مقاصد کے حصول کو قومی زندگی کا مقصد قرار دیں جو قائد اعظم کے الفاظ میں حریت، مساوات اور اخوت ہیں۔

یہی اقدار ہمارے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی نظام کی اساس ہونی چاہئیں تا کہ ہم اس ملک میں ایسا نظام تشکیل دے سکیں جو اقبال اور قائد اعظم کے الفاظ میں ’’روح انسانی کی بقا کا ضامن ‘‘ہو ۔

دو قومی نظریہ حصّہ سوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حضرت مجدد الف ثانی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہما الرّحمہ نے پاکستان اور دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھی ۔ امام احمد رضاخاں قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے انگریز حکومت اور ہند و سامراج کے خلاف اسلامیانِ ہند کو دوقومی نظریے سے روشناس کروایا ۔ 

انہوں نے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی ایسی رہنمائی کی کہ صرف چند سالوں کی جد و جہد کے بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آگیا ۔ 

امام احمد رضاخاں قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور مسلمانوں کے عظیم محسن تھے ۔ 

انہوں نے مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ایسا چراغ روشن کیا جس کی روشنی آج برصغیر پاک و ہند میں بلخصوص اور پوری دنیا میں با لعموم دکھائی دے رہی ہے ۔ 

انہو ں نے کہا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے علمِ لدّنی سے نوازا تھا انہوں نے مسلمانوں کے لئے آنے والی مشکلات کو کئی دھائیوں پہلے محسوس کرتے ہوئے مسلمانوں کو ایک علیحدہ سلامی ریاست کے لئے جدوجہد کی راہ دکھائی ۔ 

امام احمد رضاخاں قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا غلام احمدقادیانی اور گستا خانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلاف بھر پور علمی وعملی محاسبہ کیا انہوں نے ہزاروں صفحات پر مشتمل فتاوی رضویہ سمیت ہزاروں کتابیں تصنیف کیں جن کے ذریعے بر صغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں عظمت اور محبت کے چراغ روشن ہوئے ۔ وہ اسلام کے سچے مبلغ اور گستاخان رسول کے خلاف ننگی تلوار تھے ۔ 

(سید علی)

 

یہ امراظہر من الشمس ہے کہ مسلمان اور غیرمسلم دو الگ الگ قومیں ہیں ۔ دونوں كکے راستے جُدا جُدا ہیں ۔ 

دونوں کی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ مسلمان سب سے پہلے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سچا پیرو کار ہے جو اسلام کا سرچشمہ ہیں ، یہ دوقومی نظریہ کا بنیادی اصول ہے ۔ دوقومی نظریہ ’’ملّت اسلامیہ‘‘ کا نظریہ ہے ۔ 

یہی نظریہ تحریک پاکستان کی بنیاد بنا ۔

برطانوی سامراج طویل غاصبانہ قبضے کے بعد جب بر صغیر سے جانے لگا تو ہندو عیار پورے ہندوستان پر اکیلے حکومت کرنے کا خواب دیکھنے لگا ، چناںچہ اس نے اپنی حکمرانی کا راستہ ہموار کرنے کے لیے مسلمانوں کا علیحدہ قومی تشخص ختم کرنے کی ٹھان لی ۔ 

بس پھر کیا تھا ایک قومی نظریہ کا نعرہ بلند ہوا اور پھر گاندھی نے نہایت ہی منّظم طریقے سے بر صغیر کے بسنے والوں کے لیے صرف ایک ’’ہندوستانی قوم‘‘ بن جانے کی تحریک چلا دی ۔

’’ہندومسلم اتحاد‘‘ کے مظاہرے ہونے لگے ۔ مسلمان اپنا قومی تشخص اپنے ہاتھوں سے مٹانےلگے ۔

 

اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے :

علاقے بہار میں ہندوؤں نے محض گائے کی قربانی روکنے کے لیے ہزار ہا مسلمانوں کو زخمی اور قتل کردیا ۔ 

مسلمانوں کے متعدد گاؤں اور دو ہزار سات سو مکانات اس بے دردی کے ساتھ لوٹے گئے کہ جن کی تفصیل سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ 

لاتعداد مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی۔ 

پانچ عالی شان مسجدیں شہید کردی گئیں۔ قرآن مجید کی بے حرمتی کی گئی۔ بقر عید کے موقع پر کٹا رپور میں ایک دو نہیں تقریباً تیس مسلمانوں کو زندہ آگ میں جلادیا گیا ۔ 

ان نازک ترین حالات میں بریلی شریف کے مردِ حق آگاہ مجدّد مائتہ حاضرہ امام احمدرضا محدّث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ خاموش نہ رہ سکے ۔ 

آپ رحمۃ اللہ علیہ مجدّدانہ انداز میں آگے بڑھے اور دوقومی نظریہ کی علم برداری کا فریضہ ادا کرنے کی ذمہ داری سنبھالی ۔ 

آپ نے متحدہ قومیّت کا پرچار کرنے والے گاندھی نواز افراد کا ایسا تعاقب فرمایا کہ ان کے جملہ دلائل کے سارے تار و پود بکھیر کر رکھ دیے ۔

 

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے’’انفس الفکر فی قربان البقر‘‘(۱۲۹۸ھ/ ۱۸۸۰ء) کتاب تصنیف فرمائی جس میں قرآن وحدیث سے نفس قربانی اور گائے کی قربانی پر تفصیلی بحث کے بعد تمام شبہات و اعتراضات کا نہایت ہی شافی جواب دیا ، جو دیدنی ہے ، مسلم لیگ ضلع بریلی کے جوائنٹ سیکریٹری سیّد عبدالودود کے ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں : فی الواقع گاؤ کشی ہم مسلمانوں کا مذہبی شعار ہے، 

جس کا حکم ہماری پاک مبارک کتاب کلام مجید رب الارباب میں متعدد جگہ موجود ہے ۔ اس میں ہندوؤں کی امداد اور اپنے مذہبی معاملات میں کوشش اور قانونی آزادی کی بندش نہ کرے گا ، مگر وہ جو مسلمانوں کا بد خواہ ہے ۔ (سید علی)

 

’’اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالاسلام‘‘ (۱۳۰۶ھ/۱۸۸۸ء) میں ہندوستان کو دارالسّلام قرار دیتے ہوئے آپ نے سود کو حرام اور ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ غاصبانہ قرار دیا ۔ لطف تو یہ ہےکہ دارالحرب قرار دینے والوں نے خود تو ہجرت کا نام تک نہ لیا ، مگر سادہ لوح مسلمانوں کو یہاں سے ہجرت کرجانے کی تلقین کی ، 

چنانچہ امام احمدرضا محدّث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : الحاصل ہندوستان كکے دارالاسلام ہونے میں شک نہیں، عجب ان سے جو تحلیل ربوٰ کے لیے جس کی حرمت نصوص قرآنیہ سے ثابت اور کیسی کیسی سخت وعیدیں اس پر وارد ، اس ملک کو دارالحرب ٹھہرائیں اور باوجود قدرت و استطاعت ہجرت کا خیال بھی دل میں نہ لائیں ، گویا یہ بلاد اسی دن کےلیے دارالحرب ہوئے تھے کہ مزے سے سود کے لطف اڑائیے اور بآرام تمام وطن مولوف میں بسر فرمائیے ۔‘‘ 

یہ ہیں اعلیٰ حضرت کے دوقومی نظریے کے حوالے سے وہ افکار ونظریات جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی دینی ،مذہبی و سیاسی رہنمائی کافریضہ انجام دیا ۔آپ نے برصغیر کے مسلمانوں میں یہ روح پھونکی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں ۔

 

مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت سے شاید ہی برصغیر پاک و ہند اور دنیائے عرب کا کوئی مذہبی شخص ناواقف ہو گا۔ 

فقہی،علمی اور مذہبی اعتبار سے آپ جن عبقری صفات کے حامل تھے،مسلکی اختلافات کے باوجود معاصرین سے لے کر دور حاضر کے لوگوں تک سب ہی نے علمی برتری اور شریعت فہمی میں آپ کی نگاہ ثروت کا لوہا مانا ہے۔ 

آپ ایک جید عالم عبقری فقیہ، صاحب نظر اورعظیم محدث ہیں۔ انفرادیت کا عالم یہ ہے کہ جب آپ کا قلم میدان تحقیق میں فن دکھاتا ہے توعموماً آخری حدود کو چھو جاتا ہے اور مزید تحقیق کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔

 

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہمہ جہت شخصیت

 

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ذات ہمہ صفات تھی ، آپ نے جس میدان میں بھی قدم رکھا ، 

دنیا نے آپ کو اسی میدان کا شہسوار مانتے ہوئے سمجھا کہ شاید آپ نے اس فن کے حصول کے لیے تمام زندگی صرف کی ہے۔

علم ہیئت ، توقیت ، جفر ، فقہ ، حدیث ، منطق ، فلسفہ ، سائنس وغیرہ کے نہ صرف ماہر تھے ، 

بلکہ ہر فن میں خداداد علمی تحقیقی صلاحیتوں کے مالک تھے اور ہر فن میں ایک نئے انداز وفکر وبیان سے کتاب تحریر فرماکر دنیا سے اپنے قلم کا لوہا منوایا ، اسی طرح نعت گوئی میں بھی آپ امتیازی شان کے مالک تھے ، 

آپ عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں سرشارتھے ،آپ کی تصانیف میں بھی عشق رسول ومحبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ایمان افروز جلوے نظر آتے ہیں۔

اس عشق ومحبت کے جلوؤں کی جھلکیاں آپ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ مسمیٰ تاریخی ’’حدائق بخشش‘‘میں بدرجہ کمال پائی جاتی ہیں ، آپ کا کلام فصاحت وبلاغت ، لطائف ونزاکت اور سلاست و روانی کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ (سید علی)

 

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اکبر بادشاہ کا دور مسلمانان ہند پہ بہت کڑاوقت تھا ۔ 

اکبر بادشاہ نے جس نئےدین کی بنیاد ابوالفضل اور فیضی جیسے علماءِ سوء کی مدد سے ڈالی اس کو “دین الہٰی” کانام دیاگیا ۔ 

پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس دور کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں : تیسرے دور میں دین الہی کا آغاز ہوااور وہ کچھ ہوا کہ جو نا گفتنی ہے ۔ 

 

ہروہ کام کیا جانے لگا جو اسلام کے سراسر منافی ہے ۔ 

مثلا کلمہ طیبہ میں محمدرسول اللہ کے بجائے اکبر خلیفۃ اللہ پڑھا جانے لگا ۔ 

گائے کی قربانی پہ پابندی لگادی گئی ۔ 

خنزیر اور کتوں کا احترام کیا جانے لگا ۔ 

داڑھیاں منڈوادی گئیں شراب جواء عورت کی بے پردگی عام ہوگئی بادشاہ کوسجدہ تعظیمی کیا جانے لگا اور شعائرِ اسلام کا برسرعام مزاق اڑایا جانے لگا - 

ایسے دور میں کلمہ حق بلند کرنا اتنا مشکل ہو گیا لیکن ایسے دور میں امام ربانی مجدد الف ثانی احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے سرکاردوعالم صلی اللہ تعالی کی رحلت کے ایک ہزار سال بعد تجدید دین کا کارنامہ سرانجام دیا ۔ 

چونکہ امام ربانی علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب 29 واسطوں سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تک پہنچتاہے تبھی آپ کے علماء مشائخ ، صوفیاء عوام ، بادشاہ کے مقربین کو جو مکتوبات لکھے ان کو پڑھتے وقت ایک ایک جملے سے جلال فاروقی جھلکتا محسوس ہوتاہے ۔

 

جناب سید شیخ فرید کو بھیجے جانےوالا خط کی تحریر کچھ یوں تھی : اللہ تعالی نے کلام مجیدمیں کافروں کو اپنا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن فرمایاہے ۔ 

لہذا کفار کےساتھ دوستی اور میل جول بڑاہی گناہ ہوگا-ان کفار کی ہم نشینی اور دوستی کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ احکام شریعت جاری کرنے اور کفرکےنشان مٹانے کی قوت کمزور پڑ جائے گی اور یہ بہت بڑا نقصان ہے ۔

 

ایک ایمان والا اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت رکھتا ہے ۔ 

خودسوچیئےجس شخص سے ایمان کی حد تک محبت ہو کیا اس کے دشمن سے محبت ہو گی ؟ 

کیا اس کی تعظیم اور عزت کی جاسکتی ہے ؟ 

حاشا و کلا یہ محبت کی توہین ہوگی غیرت ایمانی کے سراسر منافی ہے یہ ہی دوقومی نظریہ ہے جو قرآن و سنت سے بھی ثابت ہے ۔

 

اکبری دور کے بعد بیسویں صدی کی ابتداءمیں پھر سےاس فتنے نے سراٹھایا-

ہندومسلم بھائی بھائی کا نعرہ بلند ہوا - 

امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ نے علالت کے باوجود ” المحجۃ الموتمنہ” لکھ کر ہندومسلم اتحاد کےتار پود بکھیر دیئے ۔ 

قرآن حدیث کی روشنی میں دوقومی نظریہ پوری قوت کےساتھ پیش کیا ۔ کس دردمندی کےساتھ فرماتے ہیں : جب ہندوؤں کی غلامی ٹھہری ، پھر کہاں کی غیرت کہا کی خوداری ؟۔

(المحجۃ الموتمنہ)

 

پہلی جنگ عظیم کےبعد جب مسلمانوں کی طرف سےتحریک خلافت کاآغاز ہوا،توحالات نےنیارخ اختیارکیا،اس تحریک میں مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی،حکیم اجمل خاں،ڈاکٹر انصاری،مولانا ظفرعلی،مولانا حسرت موہانی وغیرہم مشاہیرملت شامل تھے.

اسی زمانہ میں انڈین نیشنل کانگریس نےمسٹرگاندھی کےایماء پرترک موالات کی تحریک شروع کی۔

کانگریس کا قیام اگرچہ 1885 میں عمل میں آگیاتھا مگراسکا مقصد صرف یہ تھا کہ حاکم ومحکوم کےتعلقات کواستوارکرےاور بس بعد میں کامل آزادی کامطالبہ کیاگیا ۔

 

الغرض 1920 میں کانگریس کےقوم پرست ہندو اور مسلمان تحریک خلافت کےداعی اپنے مشترکہ دشمن انگریز کےخلاف متحد ہوگئے،ہرشخص ترک موالات پرتلاہوانظرآتاتھا . 

مخالفت کی کسی کوجراءت نہ تھی،جوش جنوں میں انگریزوں سےترک مواصلات بلکہ ترک معاملت کرکےکفارومشرکین سےدوستی و محبت کےلیے ہاتھ بڑھایا گیا ۔ 

ہندومسلم اتحاد کےمؤیداور ہمارے محترم بزرگ مولانا محمد علی ، اور مولانا شوکت علی جب فاضل بریلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی تحریک میں شمولیت کی دعوت دی تو فاضل بریلوی نےصاف صاف فرمادیا : مولانا میری اور آپ کی سیاست میںفرق ہے،آپ ہندومسلم اتحاد کےحامی ہیں میں مخالف ہوں۔

اس جواب سےعلی برادران ناراض ہوئے تو فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تالیف قلب کےلیے مکررفرمایا : مولانا میں ملکی آزادی کامخالف نہیں ، ہندومسلم اتحاد کا مخالف ہوں۔

(اعلی حضرت کی مذہبی وسیاسی خدمات،مطبوعہ عرفات شمارہ اپریل1970)

 

محترم قارئینِ کرام : غور کیجیے جب قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ جیسے مقبول لیڈر کو بھی ترک موالات کے خلاف کچھ کہنے کی جراءت نہ ہوئی ، پورا ملک ہند و مسلم اتحاد کی طوفانی لہروں میں بہہ رہا تھا . 

ایسے پر فتن ماحول میں جس مرد مجاہد نے ہندومسلم اتحاد کےخلاف آواز اٹھائی اور دوقومی نظریہ پیش کیا وہ ایک عالم ایک مجدد جناب احمدرضاخاں بریلوی قدس سرہ العزیز کی ذات گرامی تھی۔ 

اس ہی ضمن میں دو استفتاء کےجواب میں ایک رسالہ “المحجہ الموتمنہ فی آیۃ الممتحنہ 1920/ھ1339 ” کے تاریخی نام سے مولوی حسنین رضاخاں نےمطبع حسنی بریلی سےچھپوا کر شائع کیا تھا. 

یہ پورارسالہ رئیس احمد جعفری نے اپنی تالیف اوراق گم گشتہ” میں شامل کر دیا ہے ، جو بڑے بڑے سائز کے اسی صفحات پہ پھیلا ہوا ہے ۔

 

اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی انگریزوں سے نفرت

 

کہا جاتا ہے کہ آپ انگریزوں کے پروردہ تھے انگریز پرست تھے مگر آپ تو انگریز اور ان کی حکومت سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ لفافے پہ ہمیشہ الٹا ٹکٹ لگاتے تھے اور برملا کہتے تھے کہ میں نے جارج پنجم کا سرنیچا کر دیا ۔

آپ نے کبھی انگریز کی حکمرانی تسلیم ناکی حتی کہ ایک بار ایہ مقدمہ کےسلسلہ میں آپ کو عدالت نے طلب کیا فرمانے لگے کہ میں انگریز کی حکمرانی کو نہیں مانتا تو اس کےنظامِ عدل کو کیونکر مانوں ؟ 

حتی کے آپ کو گرفتار کرنے کےلیے معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ بات پولیس سے نکل کر فوج تک جا پہنچی مگران کے ہزاروں جانثاروں نے سر پہ کفن باندھ کر ان کے گھر کا پہرہ دیا آخرعدالت کو حکم واپس لینا پڑا ۔ 

(ہفت روزہ الفتح، 14،21 مئی 1976 ص17)

 

ایک مرتبہ انگریز کمیشنر نے 35 مربع زمین کی آپ کو پیش کش کی مگر اس مرد قلندر نےفرمایا انگریز اپنی تمام حکومت بھی مجھے دے دے تو بھی میرا ایمان نہیں خرید سکتا۔

( ماہنامہ الحبیب اکتوبر1970ء) ۔

 

دو قومی نظریہ حصّہ چہارم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ ایک مسلّمہ تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے۔ 

اس کے قیام کا عظیم اور بلند مقصد و نظریہ ہی اس کے دوام اور بقاء کا بھی جواز فراہم کرتا ہے۔ 

وہ عظیم نظریہ، دینِ اسلام ہے۔ 

وہی دینِ حق جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر تشریف لائے ۔ 

جس میں انسانوں کے حقوق ، عزت و تکریم ، مساوات ، برابری ، امانت و دیانت ، سچائی اور انسانیت کی فلاح و بہبود کی بات ہوتی ہے ۔

 

نظریہ پاکستان حقیقت میں وہی نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جس میں سب سے زیادہ انسانیت کے حقوق پر توجہ دی جاتی ہے ۔ 

جو انسان ساز ، انسان دوست اور انسان نواز ہے ۔ جس کی اساس ’’لا اله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه‘‘ ہے ۔ 

یہی وہ کلمہ طیبہ ہے جس کے اقرار و اعلان سے انسان کے ظاہرو باطن میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے ۔ 

اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ ساتھ تمام معبودانِ باطلہ اور ظالمانہ قوانین اور انسانیت سوز نظام کا انکار بھی ہوتا ہے ۔

 

برصغیر پاک و ہند میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دن بہ دن طاقت پکڑنے کے سبب مسلمان اخلاقی اور معاشی طور پر کمزور ہوتے گئے ۔ 

ٹیپو سلطان اور نواب سراج الدولہ جیسے سلاطین نے دکن اور بنگال میں اسلامی تشخص کو سنبھالا دینے کی کوششیں جاری رکھیں لیکن ان کی زندگیوں کے چراغ گل ہوتے ہی مسلمان غلامی کی زنجیروں میں جکڑے گئے ۔

 

انگریزوں نے اورنگزیب عالمگیر کے زمانے سے ہی برعظیم پاک و ہند میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں جو قدم جمانا شروع کیے تھے، وہ بالآخر کامیاب ہوئے اور مسلمانوں کے داخلی خلفشار اور معاشی بدحالی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں کی دولت سمیٹنے کے ساتھ ساتھ یہاں کی سیاست اور حکومت پر بھی قبضہ کرلیا ۔

 

مسلمانوں کی سیاسی موت تو ہوگئی لیکن وہ اسلامی تشخص جو مسلمانوں کی ثقافت سے ظاہر ہوتا تھا وہ کبھی ختم نہ ہوا۔ 

اس اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے میں ان صوفیاء کرام کا کردار ہے جو سیاست و حکومت سے ماوراء ہوکر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے اور قریہ قریہ، نگر نگر لوگوں کے دلوں کی دنیا تبدیل کرتے رہے اور ان کو ملتِ اسلامیہ کی عظیم برادری میں شامل کرتے رہے ۔ 

اہلِ طریقت صوفیاء کرام نے اپنے حسنِ اخلاق ، محبت، شفقت، عجز و نیاز، تواضع و انکساری اور جذبہ ایثار سے رنگ و نسل کے امتیاز اور غرور کو توڑا اور جذبۂ اخوت و محبت کو فروغ دیا اور لوگوں کو دینِ اسلام کی لڑی میں پروتے رہے ۔ 

اسی جذبہ جاوداں نے نظریہ پاکستان کو تقویت دی ۔

 

مرشدِ کامل حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری ایسے عظیم صوفیاء کرام رحمہم اللہ کے ہر اول دستہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے مملکتِ پاکستان کی بنیاد رکھنے کا اہم فریضہ انجام دیا۔ 

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے نزدیک آپ نے سرزمین ہند میں شجرِ اسلام کا بیج بویا :

 

سید ہجویر مخدومِ امم

مرقدِ او پیر سنجر را حرم

 

بندھاہے کوہسار آساں گسیخت

در زمینِ ہند تخم سجدہ ریخت

 

خاکِ پنجاب از دمِ او زندہ گشت

صبحِ ماز مہرِ او تابندہ گشت

 

(علامه محمد اقبال کلیات اقبال فارسی صفحہ 51)

 

سید ہجویر نے تبلیغِ اسلام کے راستہ میں اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی سے کامیابیاں حاصل کیں۔ 

لاہور اور پنجاب میں تبلیغِ دین کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان کی بھی راہنمائی فرمائی ۔

 

سید ہجویر کے ساتھ دیگر صوفیاء کرام رحمہم اللہ بھی یہی فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ پھر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری برصغیر پاک و ہند میں تشریف لائے اور اجمیر کی سرزمین پر بیٹھ کر لاکھوں لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ 

پھر پنجاب میں اہل چشت کے امام حضرت بابا فریدالدین گنج شکر پاکپتن شریف جو کبھی ’’اجودہن‘‘ کہلاتا تھا، میں تشریف لائے اور دین حق کا پیغام پہنچایا ۔

 

اس طرح صوفیاء کرام کے اسماء کی ایک طویل فہرست ہے جو اس خطے میں آکر اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ 

بالآخر جب برصغیر پاک و ہند کے لوگ انگریزی غلامی میں گھر گئے تو پھر بھی یہی نظریہ کام آیا جو رفتہ رفتہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرگیا اور پھر پاکستان کے خدوخال واضح ہونا شروع ہوئے ۔

 

غلامی کے دور میں مختلف مسلم قائدین مسلمانوں کے خاص اسلامی تشخص کو اجاگر کرتے رہے اور اس طرف توجہ دلاتے رہے کہ مسلمان ایک خاص قوم ہیں، 

جن کا سیاسی، معاشی،معاشرتی اور اخلاقی و سماجی نظام کسی انسان کا وضع کردہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان کردہ ہے۔ 

 

جب مسلمانوں میں ایک الگ وطن کا نظریہ پروان چڑھنے لگا تو متحدہ قومیت کے نام پر ’’ہندو مسلم بھائی بھائی‘‘ کا نعرہ لگایا گیا۔ ہندوئوں نے جس وقت یہ جال پھینکا تو کئی مسلمان قائدین بھی اس سازش کا شکار ہوگئے اور ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد جغرافیہ کو قرار دیا اور کہا گیا کہ چونکہ ہماری زمین ایک ہے، زبان ایک ہے، رنگ ایک ہے، لہٰذا ہم ہندو مسلم ایک ہیں۔

 

نیشنلزم کے اس نعرہ کو حضرت علامہ اقبال نے بڑے مضبوط دلائل سے مسترد کردیا تھا اور وہ صرف اسلامی قومیت کا پرچار کرتے رہے۔ 

مسلم ہندوستان کا جو تصور علامہ اقبالؒ نے دیا، بعد میں اسے تصورِ پاکستان یا نظریہ پاکستان کہا جانے لگا ۔ (سید علی)

 

مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اپنی رحلت سے کچھ عرصہ قبل حضرت علامہ محمد اقبال نے ارشاد فرمایا : ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ 

ان میں کوئی چیز بھی مشترک نہیں، میں واضح الفاظ میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی سیاسی کشمکش کا حل اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہر جماعت کو اپنی اپنی مخصوص قومی اور تہذیبی بنیادوں پر آزادانہ شوریٰ کا حق حاصل ہونا چاہئے ۔

 

علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الٰہ آباد 1930ء اور دیگر خطبات میں اس بات کو بڑی شدو مد سے واضح کیا کہ ’’مسلمان‘‘ ایک قوم کا نام ہے، ان کو علیحدہ ایک وطن کی ضرورت ہے اور پھر ان علاقوں کی بھی نشاندہی فرمائی، جہاں مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد اسلامی ریاست بن سکتی ہے۔

 

علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الٰہ آباد 1930ء میں ارشاد فرمایا : مجھے ایسا لگتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔ میں صرف ہندوستان میں اسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتا ہوں ۔

 

نظریۂ پاکستان اور قائداعظم

قائداعظم کے ارشادات کی روشنی میں بھی ایک جداگانہ قومیت کے تصور اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد اسلامی ریاست کا جو خاکہ سامنے آتا ہے ، وہ بھی واضح ہے ۔ (چشتی)

 

23 مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس جس میں قرار داد لاہور منظور کی گئی تھی، قائداعظم نے فرمایا:

’’اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں بلکہ درحقیقت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں۔ چنانچہ اس خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہئے کہ ہندو مسلم مل کر ایک مشترکہ قومیت کی تخلیق کرسکیں گے۔ 

یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے، نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ یہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو کہ ایک دوسرے کی ضد اور ایک دوسرے کے متصادم ہیں ۔

 

اس طرح 19 مارچ 1944ء کو طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظم نے فرمایا : اسلام ہمارا راہنما ہے اور ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ ہے جس میں کسی سرخ یا پیلے پرچم کی ضرورت نہیں اور نہ ہمیں سوشلزم ، کمیونزم ، نیشنلزم یا کسی دوسرے ازم کی ضرورت ہے ۔

 

قائداعظم نے برصغیر پاک و ہند کے علماء کرام، مشائخ عظام اور مسلمانوں کے جذبات اور نظریات کی تصویر کشی کرتے ہوئے جس پاکستان کا خواب دیکھا اور جس اسلامی ریاست کے قیام میں کامیاب ہوئے، اس کے خدوخال اور نظام کے بارے میں بابائے قوم، بانی پاکستان کے ارشادات تاریخ کا حصہ ہیں ۔

 

ایک بار پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے خطاب میں قائداعظم پر طنز کرتے ہوئے کہا : آج کے سائنسی دور میں جبکہ مذہب، انسانی مسائل کے حل میں ناکام ہوچکا ہے، ہندوستان کا ایک سیاسی دانشور، مذہب کے نام پر ایک الگ ریاست بنانے کا مطالبہ کررہا ہے ۔

 

قائداعظم نے فوراً اس کا جواب دیا : پنڈت نہرو نے درست کہا کیونکہ ہر شخص اپنے بارے میں صحیح جانتا ہے ، ممکن ہے ان کا مذہب ناکام ہو چکا ہو لیکن ہمارے معاملے میں ایسا نہیں ، بلکہ اسلام تمام عصری تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور ہر دور میں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔

 

قائدِ اعظم محمد علی جناح جنہوں نے مسلم قوم کی قیادت کرتے ہوئے شبانہ روز فکری، جسمانی اور ذہنی مشقت برداشت کرتے ہوئے دنیا کی دو منظم ترین اقوام سے چومکھی لڑائی لڑکر اپنی غلام قوم کےلیے جس ایک آزاد وطن کو حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی، اس کے قیام سے بہت ہی پہلے قائداعظم نے اس کے دستور کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں یہ اعلان فرمایا : جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے شبہ ہوتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ۔ ہم نے تو جمہوریت تیرہ سو سال پہلے ہی سیکھ لی تھی ۔

اس طرح 25 جنوری 1948ء کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے فرمایا : کون کہتا ہے کہ پاکستان کے آئین کی اساس شریعت پر نہیں ہوگی۔ 

جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ مفسد ہیں۔ ہماری زندگی میں بھی اسلامی اصولوں پر اسی طرح عمل ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو سال پہلے ہوتا تھا۔ 

اسلام نے جمہوریت کی راہ دکھائی ہے، مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے۔ 

لہٰذا اسلامی اصول پر عمل کرنے پر ہم ہر ایک کے ساتھ انصاف کرسکیں گے ۔

 

قائداعظم نے پشاور میں جنوری 1948ء میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا الگ ٹکڑا حاصل کرنے کےلیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے کہ جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں ۔ 

اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت و وفا کشی کا مرجع خدا تعالیٰ کی ذات ہے، جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ 

قرآن کریم کے احکام ہی ریاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کر سکتے ہیں ۔ 

دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآنی اصول و احکام کی حکومت ہے ۔

 

پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں قائداعظم نے یہ خطاب کیا جس میں حلف برداری اور سبکدوش ہونے والے انگریز وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن سے انتقالِ اقتدار کی کارروائی بھی شامل تھی۔ قائداعظم نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں ارشاد فرمایا:حکومت کا پہلا فرض نظم و ضبط قائم رکھنا ہے تاکہ لوگوں کے جان و مال، عزت اور مذہبی عقائد کا تحفظ ہوسکے ۔ 

اس وقت جو بڑی لعنتیں مسلط ہیں ان میں رشوت خوری اور بے ایمانی بھی شامل ہیں، ہمیں ان کے فولادی پنجے کو توڑنا ہوگا۔ 

چور بازاری اور نفع خوری ایسی لعنتیں ہیں جو عوام کےلیے سخت مصیبت کا باعث ہیں ۔ آپ کو اس عفریت سے بھی جنگ کرنا ہے۔ 

یہ معاشرتی جرم ہے ، چور بازاری کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں ملنی چاہئیں ۔ جو چیز میری روح کو سخت تکلیف دیتی ہے وہ ہے بدعنوانی، بددیانتی اور رشوت خوری۔ میں کسی قسم کی رشوت اور بدعنوانی کو برداشت نہیں کر سکتا ۔ (سید علی)

 

مارچ 1948ء کو قائداعظم مشرقی پاکستان کے دورے پر پہنچے تو وہاں بھی انہوں نے فوجی اور سول افسران کے کئی اجتماعات سے خطاب کیا اور ہر موقع پر مملکت کے ملازمین سے ان کا خطاب امانت و دیانت اور اپنے عوام کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ہی ہوتا کیونکہ ان کی بصیرت انہیں یہ بتا رہی تھی کہ مملکت کے ملازمین کو کنٹرول کرنا اور راہِ راست پہ لانا بے حد ضروری کام ہے تاکہ انتظامیہ بدعنوانی اور نااہلی کے جراثیم سے پاک رہے اور عہد غلامی کی قباحتیں ، افسرانہ کرّوفر اور مملکت کے حقیقی مالکوں، یعنی عوام پر ان کے رعب وغیرہ کی ناروا روایات ختم ہوں ۔

 

قائدِ اعظم سیاست میں شمولیت سے لے کر اپنی زندگی کی آخری سانس تک اتفاق و اتحاد کی بات کرتے رہے۔ 

پاکستان بننے کے بعد بھی آپ ہمیشہ اتحاد کی ہی تلقین کرتے رہے ۔

 

12 اپریل 1948ء کو اسلامیہ کالج کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : یہ نہ بھولیے کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تعمیر کررہے ہیں، جسے پوری دنیائے اسلام کی قسمت بننا ہے، 

لہٰذا ہماری نظر وسیع ہونی چاہیے ۔ ایسی وسیع کہ وہ صوبائی حد بندیوں، محدود قوم پرستی اور نسلی تعصبات سے بالا تر ہو اور اتحاد اس کا مرکزی نقطہ ہو ۔

 

17 اگست 1948ء کو قوم کے نام عید کے پیغام میں انہوں نے فرمایا : مجھے امید ہے کہ سات کروڑ انسانوں کی یہ متحد قوم جس عزم و استقلال کی حامل ہے اور جس کی تاریخ تہذیب عالم میں شاندار حیثیت رکھتی ہے، اپنا کام جاری رکھے گی اور کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔ ہمیں اپنا یہ قول یاد رکھنا چاہئے۔۔۔ اتحاد، ایمان اور تنظیم ۔

 

قائدِ اعظم اپنی فوج کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے تھے۔ دسمبر 1947ء کو کراچی میں پاکستان کی بری ، بحری اور فضائی افواج کے افسران سے خطاب فرمایا : خدا نے ہمیں یہ سنہری موقع عطا فرمایا کہ ہم یہ ثابت کر دکھائیں کہ ہم واقعی ایک نئی مملکت کے معمار ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ 

خدارا! کہیں لوگ ہمارے متعلق یہ نہ کہیں کہ ہم یہ بار اٹھانے کے قابل ہی نہ تھے۔ آیئے! ہم پاکستان کی تعمیر و ترقی کا عزمِ مصمم کریں، اسے ایک ایسی عظیم مملکت بنائیں جو ہمارے آنے والی نسلوں کے رہنے کے قابل ہو۔ 

اس شاندار نصب العین کا تقاضا ہے۔۔۔ کام، کام اور بس کام ۔

قائدِ اعظم کے ان ارشادات کی روشنی میں نظریہ پاکستان کی وضاحت کچھ یوں ہوتی ہے کہ نظریہ پاکستان مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل ہے :

 

اسلامی تشخص و قومیت کی اساس

جداگانہ تہذیبوں کا تصور

دو قومی نظریہ

قرآنی اصول و احکام کی حکومت

غیر اسلامی نظاموں سے بیزاری

جمہوریت

مساوات اور معاشی انصاف

قومی اتحاد ویکجہتی

مسلمانوں کی ایک طویل جدوجہد اور کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانانِ برعظیم پاک و ہند کو 14 اگست 1947ء کو پاکستان کی صورت میں ایک نعمتِ عظیم عطا فرمائی۔ 

جس کے لیے مسلمانوں نے ہر قسم کی قربانیاں دی تھیں۔ تحریک پاکستان کی خون آشام داستان کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

ایک آزاد وطن کے حصول کے لیے جب ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کیا گیا تو پھر عوام نے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ 

ہمارے عظیم آبائو اجداد نے ہمت نہ ہاری۔ 

ان کے عزمِ مصمم اور جہدِ مسلسل کا نتیجہ تھا کہ بالآخر قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک آزاد مسلم جمہوری ریاست کا قیام عمل میں آیا ۔

 

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قائداعظم کے ارشادات کی روشنی میں نظریہ پاکستان کا تحفظ کرتے ہوئے اس کی بقاء اور ترقی کےلیے اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں ۔ 

اللہ تعالیٰ اس کرۂ ارضی کو تاقیامِ قیامت آباد و شاد رکھے آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ 

(طالبِ دعا حافظ سید محمد علی نوری)